افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت کے طالبان کے ساتھ رابطوں میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
صدر کرزئی کے ترجمان وحید عمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی ماہ پہلے جون میں ہونے والے امن جرگے کے بعد سے حکومت اور طالبان کے رابطوں میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اس جرگے میں قبائلی رہنماؤں نے صدر کرزئی کے طالبان کے لیے عام معافی اور انہیں عسکریت پسندی سے ملازمت کی طرف لانے کا پروگرام منظور کیا تھا۔
یہ باقاعدہ مذاکرات نہیں ہیں۔ کوئی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات نہیں ہو کر رہا ہے
افغان صدر کے ترجمان
صدر کے ترجمان کے مطابق کئی طالبان چاہتے ہیں کہ اب امن کی طرف بڑھا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی طرف سے اس کے کئی اشارے ملے ہیں اور طالبان نے اس سلسلے میں حکومت سے اکثر دیگر ذرائع اور ثالثوں کے ذریعے رابطے کیے ہیں۔
تاہم ترجمان وحید عمر نے کہا کہ ’یہ باقاعدہ مذاکرات نہیں ہیں۔ کوئی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات نہیں ہو کر رہا ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ کس سے بات ہو رہی ہے، یا وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں یا وہ کتنے با اثر ہیں۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کے اندر سے ہی اب طالبان پر یہ دباؤ ہے کہ وہ امن کی جانب جائیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق طالبان رہنماؤں یعنی ’کوئٹہ شوری‘ کے مقررر کردہ نمائندے حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ اب وہ مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں اور وہ اس صورتحال سے’ نکلنے کا راستہ تلاش کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔‘
تاہم طالبان کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات جاری ہیں۔
طالبان کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ اس وقت تک افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے جب تک تمام غیر ملکی فوجوں کو ملک سے واپس نہیں بلایا جاتا۔
No comments:
Post a Comment