Saturday, October 16, 2010

کوئی غیر آئینی یا غیرقانونی کام نہیں ہوگا


جب سے جمہوری حکومت آئی ہے اسکے جانے کی تاریخیں دی جاتی رہی ہیں ہم نے حوصلے اور خندہ پیشانی سے یہ تاریخیں سنیں

وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت ہے اور اس میں کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی کام نہیں ہوگا۔

بابر اعوان نے کہا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ سپریم کورٹ افواہوں پر مبنی خبروں پر تو بھروسہ کرتی ہے لیکن سربراہِ حکومت یعنی وزیراعظم جو اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں، ان کی بات پر یقین نہیں کرتی۔

یہ بات انہوں نے جمعہ کی شام گئے وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔

کلِک

بابر اعوان نے کہا کہ آئینی عہدوں سے غیر قانونی طریقے سے نہ ہٹانے کی بات تو ہوتی ہے لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صدرِ مملکت بھی آئینی عہدہ ہے اور انہیں بھی غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔

بے بنیاد اور بے پر کی اڑائی ہوئی خبر کی وزیراعظم نے تردید کی لیکن اس کے باوجود بھی رات کو دو بج کر پچاس منٹ پر اٹارنی جنرل پاکستان کے سیکرٹری کو سپریم کورٹ نے نوٹس بھیج دیا

بابر اعوان

’جب سے جمہوری حکومت آئی ہے اس کے جانے کی تاریخیں دی جاتی رہی ہیں ہم نے حوصلے اور خندہ پیشانی سے یہ تاریخیں سنیں‘۔ ان کے بقول وزراء کے سامان باندھنے اور وزراء کی ملک سے روانگی کے لیے جہاز کھڑے ہونے کی خبریں بھی چلائی گئیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’بے بنیاد اور بے پر کی اڑائی ہوئی خبر‘ کی وزیراعظم نے تردید کی لیکن اس کے باوجود بھی رات کو دو بج کر پچاس منٹ پر اٹارنی جنرل پاکستان کے سیکرٹری کو سپریم کورٹ نے نوٹس بھیج دیا۔

بی بی سی سی کے نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا ہے کہ پریس کانفرنس میں بابر اعوان نے کہا کہ حکومت نوٹیفکیشن واپس لینے کی ’جعلی خبر‘ چلانے کی تحقیقات کرے گی۔

ان کے بقول اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی خبر ہو تو اسکی پہلے تصدیق کی جائے اور پھر ایسی خبر چلائی جائے اور کسی حکومتی نمائندے سے پوچھ لیا جائے کہ حقائق کیا ہیں۔ انہوں نے کہا ’جمہوری حکومت کے دور میں سارے خاطر جمع رکھیں کہ کوئی تصادم نہیں ہوگا اور آئینی حدود میں کام کرنے والے کسی ادارے کو پرواہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘۔

بابر اعوان نے کہا کہ ساڑھے گیارہ سال تک آئین توڑنے والے کو (ضیاء الحق) کو کچھ نہیں کہا گیا، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں برطرف کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا گیا، جنرل پرویز مشرف کو آئین توڑنے پر تین سال کی مدت دے کر آئینی ترمیم کا اختیار دیا گیا۔ ’ہم آرٹیکل چھ کے ملزموں کے ستائے ہوئے ہیں اور کوئی ہم سے توقع نہ کرے کہ ہم ایل ایف او، پی سی او یا ای سی او (ایکسٹرا کانسٹیٹیوشنل آرڈر) جاری کریں گے‘۔

No comments:

Post a Comment